اردوئے معلیٰ

کھو چکا قبل ازیں بول کے گویائی بھی

چھین لی جائے نہ گستاخ کی بینائی بھی

 

آگہی ، جادوئی زنبیل ہے ، جس میں سمٹی

وسعتِ خواب بھی ، تعبیر کی گہرائی بھی

 

وہ سخن پوش بھی خاموش ہے عریاں ہو کر

دم بخود ہیں سرِ بازار ، تماشائی بھی

 

کوچہِ عشق میں گم نام نہیں مر سکتا

خود نُما شوق کو منظور ہے رسوائی بھی

 

اُس کی افسردہ نگاہوں میں کہیں داد نہ تھی

ہم نے ہر چند غزل جھینپ کے دہرائی بھی

 

درد ، کم ظرف ، مروت کا روادار کہاں

کام آئی نہ شبِ ہجر شناسائی بھی

 

رہ گئے کانپ کے ہونٹوں کے دھڑکتے گوشے

اُڑ گئی لحنِ بلاء خیز کی رعنائی بھی

 

آپ ہی سونت لی تلوار ، مقابل اپنے

غیر ممکن ہوئی میدان سے پسپائی بھی

 

عمر ، اُس وادیِ آشوب میں اُتری ہے ، جہاں

گونج اُٹھتی ہے چٹختی ہوئی تنہائی بھی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ