کہاں سے لاتا ادائیں وہ لڑکیوں جیسی
سو آئینے میں بھی حیرت ہے پتلیوں جیسی
ہمارے بیچ اٹھائی ہے وقت نے دیوار
میں جگنوں کی طرح ہوں ، وہ تتلیوں جیسی
اور اس کے بعد کا موسم بیان سے باہر ہے
میں دھوپ سرد دنوں کی، وہ کھڑکیوں جیسی
ہوا بھی چلتی ہوئی اورچراغ جلتا ہوا
وہ بولتی ہوئی ،آواز تلخیوں جیسی
وہ لڑکی میری گلی سے گزر رہی ہے زبیر
مہک سی آنے لگی ہے چنبیلیوں جیسی