کہتا ہے اپنے دل سے نکالوں میں اب تجھے
دانستہ اپنے دل میں بسایا ہی کب تجھے؟
میں خود کو خود میں ڈھونڈ نہیں پایا آج تک
حیرت ہے! مجھ میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں سب تجھے
واقف نہیں جو حسن کی شوخی سے، کَم نصیب
کہتے ہیں بدلحاظ ، اجڈ ، بے ادب تجھے
کل پایا جس نے تجھ سے تمدن زکوٰة میں
سکھلا رہا ہے آج وہ جینے کا ڈھب تجھے
میں محوِ خواب ، خاک پہ ، دنیا سے بے خبر
مخمل کے بستروں میں سکوں کی طلب تجھے
چپ چاپ سن لیا سبھی ، بولا نہ ایک لفظ
دوں اس سے بڑھ کے کیا میں ثبوتِ نسب تجھے
مر کر بھی میری جان ، نہ چھوڑوں گا تیری جان
مرقد پہ میرے آئیں گے ، روئیں گے سب تجھے