کہوں بات یہ میں تو بے جا نہیں ہے
نبی کوئی ختم الرسل سا نہیں ہے
ہزار انبیاء ایک سے ایک بڑھ کر
پہ کوئی سراجاً منیرا نہیں ہے
وہ ختمِ نبوت، امام انبیاء کے
علو مرتبت کوئی ان سا نہیں ہے
وہ خلقِ مجسم وہ رحمت سراپا
کوئی اور میرے نبی سا نہیں ہے
نقوشِ قدم اس کے عرشِ بریں پر
جہاں آج تک کوئی پہنچا نہیں ہے
ہے معراج کا واقعہ منفرد ہی
کسی اور قصہ سے ملتا نہیں ہے
تری بزم کے لوگ عقبیٰ کے طالب
کوئی ان میں دنیا کا بھوکا نہیں ہے
پلایا ہے وحدت کا ساغر جو اس نے
اتر جائے کیف اس کا ایسا نہیں ہے
لگی دل کو ہے آستانے پہ پہنچوں
مگر واپسی کی تمنا نہیں ہے
طرف دارِ امت وہی ایک ہو گا
نظرؔ کوئی جس دن کسی کا نہیں ہے