کہیں بھڑکا ہوا شعلہ کہیں پر پھول فن میرا
سخن میرا جہنم ہے ، سخن باغِ عدن میرا
تصور میں ہوئی روشن تری آواز کی شمع
پگھلنے لگ گیا ہے موم کی صورت سخن میرا
تمہاری آرزُو ، عریاں مری آغوش میں اتری
نیاز و عجز سے پسپاء ہوا ہے پیرہن میرا
زمانوں کے مسافر کی سبک دوشی ضروری تھی
مری پرواز کے رستے میں حائل تھا بدن میرا
مری بوسیدگی کی چال چل دی وقت نے وہ تو
مثالوں میں بیاں ہوتا تھا ورنہ بانکپن میرا
لگامیں کھینچنے والوں نے باچھیں چیر دی ورنہ
مرے اظہار کی شدت سے پھٹ جاتا دہن میرا
بہت مہنگا پڑا سر پھوڑنا وحشت کے عالم میں
جبیں تیشہ سمجھ بیٹھا مزاجِ کوہ کن میرا