کیا بتاؤں کہ قلم پر مرے کیا کیا اترا
ہاں زباں پر مری، نعتوں کا وظیفہ اترا
کس طرح عرض کروں شانِ رسولِ اکرم
ذہنِ افکار پہ مدحت کا سلیقہ اترا
ایک دن پھر مجھے طیبہ سے بلاوا آئے
سانس در سانس یہی ایک عریضہ اترا
لفظ جوڑے ہیں جو الفت سے ثنا کی خاطر
ان کی جانب سے بھی شفقت کا صحیفہ اترا
اسوۂ پاکِ نبی جس کے عمل کا محور
زندگی جینے کا بس اس پہ قرینہ اترا
آپ کے در سے شفا سب کو ملی ہے زاہدؔ
دہر میں آپ سا کوئی نہ مسیحا اترا