اردوئے معلیٰ

کیا عرض ہو رَفعِ یدِ نِعمات سے پہلے

دامن بھی جہاں ملتا ہو خیرات سے پہلے

 

بڑھتا ہی نہیں دستِ معارض مری جانب

وہ میری خبر رکھتے ہیں حالات سے پہلے

 

کیا طُرفہ کرشمہ ہے کہ رہتی ہے مسلسل

تبشیرِ عنایت سی عنایات سے پہلے

 

پھر بعد میں جو چاہیں نکیرین کی مرضی

مَیں نعت سُنا لوں گا سوالات سے پہلے

 

مکّے کو بھی جائیں گے مدینے کی بدولت

محظوظ تو ہم ہو لیں مدارات سے پہلے

 

سب اسم تھے مکنون ترے اسم کی خاطر

موہوم تھی ہر بات تری بات سے پہلے

 

صد شکر کہ خوش آئی تری نعت کی نعمت

واللہ! مجھے نسبتِ سادات سے پہلے

 

ترحیب کو جاں آئے گی خود جسم سے باہر

آئیں گے وہ جب نزع کی ساعات سے پہلے

 

تھی آپ کے ہی واسطے میثاق کی محفل

جُز آپ کے تھا کون شروعات سے پہلے

 

اللہ کو معلوم ہے کیسا تھا، کہاں تھا

منصب وہ ترا خِلقِ مقامات سے پہلے

 

حاجت نہیں اُس سمعِ معالی کو بیاں کی

مقصودؔ وہ سُن لیتے ہیں حاجات سے پہلے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ