کیا مرگ و نیستی ہے تو کیا بود و ہست ہیں
یہ فاصلے جنوں کے لیے ایک جست ہیں
ہم پر کوئی بھی مان کوئی بھی یقین کیا
ہم لوگ عشق پیشہ و وحشت پرست ہیں
سر ہو چکیں تو علم ہوا ہم کو صاحبو
یہ چوٹیاں بھی کرب کی قامت سے پست ہیں
ہم کو ترے وجود سے کیا چاہیے کہ ہم
اپنی فنا کے کھیل تماشے میں مست ہیں
تیرے سوا بھی لاکھ تماشے جنوں کے ہیں
یعنی قضا کے اور کئی بند و بست ہیں
سوداگرانِ عشق کے جمِ غفیر میں
اپنی وہی بساط کہ کاسہ بدست ہیں