کیسے بتلاؤں کہ پھر ہوں گا میں کتنا محظوظ ؟
نعت سن کر جو مری ہوں مرے آقا محظوظ
جس کو اک بار کرے جلوۂِ خضریٰ محظوظ
کر نہ پائے گا اسے اور نظارہ محظوظ
کشتۂِ الفتِ انگشت عصائے موسیٰ
وصفِ نعلینِ نبی سے یدِ بیضا محظوظ
پھول کیا تیرے تکلم سے گلستان جھڑے
شہد کو لہجۂِ شیریں کرے تیرا محظوظ
سنتے ہی یاد نہیں رہتی مصیبت کوئی
نعتِ سرکار ہمیں کرتی ہے ایسا محظوظ
یہ بھی مقصود تھا معراج میں ملحوظ کہ ہو
بوسۂِ پا سے تِرے عرشِ معلّٰی محظوظ
تیرے محبوب کی توصیف سنائی تجھ کو
تو بھی بخشش سے مجھے کردے خدایا ! محظوظ
تیرے شعروں پہ معظمؔ ہے کوئی خاص کرم
سننے والوں کو کیا کرتے ہیں خاصا محظوظ