گدائے در ہیں کرم کے طالب حضور ہم سے نبھائے رکھنا
ہمیں غلامی کے راستوں پہ کریم آقا چلائے رکھنا
بڑا سہارا ہے نام تیرا بڑے مسائل کا سامنا ہے
ہمیشہ حالات کی تپش میں سروں پہ رحمت کے سائے رکھنا
جبینِ عالم پہ سب سے پہلے مرے نبی نے یہی لکھا ہے
چراغ ظلمت کے راستوں میں محبتوں کے جلائے رکھنا
جو حاضری ہو بڑے ادب سے نظر جھکا کر لبوں کو سی کے
تم آنسوؤں کو بھی چشمِ تر میں چھپائے رکھنا چھپائے رکھنا
وہ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جان سے بھی قریب تر ہیں
عطا کریں گے عطا کریں گے تم اپنا کاسہ بڑھائے رکھنا
شکیلؔ قُربِ نبی کی مد میں ادب کے رہبر بتا گئے ہیں
جو سر کے بل چل سکو تو بہتر وگرنہ آنکھیں بچھائے رکھنا