اردوئے معلیٰ

گرفتِ حیرت و بہجت میں ہے وصال گھڑی

کہ میری زیست نے دیکھی ہے اِک کمال گھڑی

 

عطا نے ایسے دریچے سخن کے کھول دئیے

سراپا ساکت و صامت ہے اب سوال گھڑی

 

بس ایک لمحے کو پھیلی تھی دید کی خوشبو

تمام عمر مقدر رہی نہال گھڑی

 

تھا سر بسر ہی اندھیرے میں یاس یاس وجود

سحر بہ کف ہوئی ظاہر وہ خد و خال گھڑی

 

کہ اُن کی نعت کے لمحے ہیں سانس کی تطبیق

سپردِ حرف ہی رہتے ہیں ماہ، سال، گھڑی

 

ربیعِ نور میں چمکی تھی ایک ساعتِ نور

وہ بے مثال سے موسم کی بے مثال گھڑی

 

مَیں اُن کی نعت کے منظر میں جب تھا خود رفتہ

عجیب نور کے ہالہ میں تھی خیال گھڑی

 

تمام رستے میں طاری تھی عرضِ شوق کی دُھن

مدینے پہنچا تو چپ ہی رہی مقال گھڑی

 

کمالِ جذب تھا گنبد کے سامنے مقصودؔ

کہ جیسے عمرِ رواں ہو یہ خوش خصال گھڑی

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات