گر طلب سے بھی کچھ ماسوا چاہیے
اُن کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے
ڈوبتی ناؤ کو ناخدا چاہیے
اِک نظر اے شہِ دوسرا چاہیے
دل کو دیدِ رُخِ مصطفی چاہیے
آئینے کے لیے آئینہ چاہیے
ہاتھ میں دامنِ مصطفی آگیا
اِک گنہ گار کو اور کیا چاہیے
لے چلو اب مدینے کو چارہ گرو
مجھ کو طیبہ کی آب و ہوا چاہیے
اُن کے دَر سے تو سب کچھ ملے گا مگر
اپنا کردار بھی دیکھنا چاہیے
سامنے سرورِ دو جہاں آگئے
حشر میں اور بسملؔ کو کیا چاہیے