گفتگوئے شہ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے
یادِ محبوب میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار بہت کافی ہے
مدح سرکار میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور
میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے
للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے
کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہ دیں
ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے
نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِمختار بہت کافی ہے
بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے
روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے