اردوئے معلیٰ

گل و گلاب، عنادل کی نغمگی تجھ سے

بہارِ تازہ کے پہلو میں زندگی تجھ سے

 

جہانِ حسن کو ملتی ہے تیرے اسم سے خیر

وجودِ عشق نے پائی ہے تازگی تجھ سے

 

عروسِ شب کے سرہانے ترے کرم کا غلاف

نگارِ صبح کے دامن میں روشنی تجھ سے

 

مجال شاہوں کی، اُس سے کریں شہی کی بات

ترے فقیر کو حاصل ہے خواجگی تجھ سے

 

حوالے تیرے ہوں تجھ سے رکھوں گا ربطِ نیاز

مَیں بندہ تیرا ہوں سیکھوں گا بندگی تجھ سے

 

نئے زمانوں کو چاہت ہے اور حاجت ہے

مرے کریم کہ سیکھیں وہ سادگی تجھ سے

 

غلام زادہ ہوں، زیبِ گلو رہے مقصودؔ

وہ طوق، جس کو ملی شانِ سروری تجھ سے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات