گنجِ رحمت لٹانے حضور آگئے
دشت میں گل کھلانے حضور آگئے
جس پہ چلنے سے حاصل ہو رب کی رضا
راستہ وہ دکھانے حضور آ گئے
بجھ چکے تھے صداقت کے سارے دیے
پھر لگے جگمگانے ، حضور آ گئے
عبد و معبود کے بیچ حائل تھے جو
سارے پردے ہٹانے حضور آ گئے
اے مرے دل پریشاں ہے کیوں اس قدر
تیری بگڑی بنانے حضور آ گئے
لے کے تحفہ عنایات و اکرام کا
ناز کر ، اے زمانے ! حضور آ گئے
ہر طرف رحمتِ کبریا کے مجیبؔ
لگ گئے شامیانے حضور آ گئے