گُلاب موسم ہے اور نکہت کا سلسلہ ہے
دیارِ خوشبو کا سارا منظر ہی دلکشا ہے
مَیں اُس سخی کے حضور میں ہُوں، پہ سوچتا ہُوں
جو ساتھ لایا تھا حرفِ مطلب وہ کیا ہُوا ہے
جو بے طلب ہی عطا ہے وہ تیرے در کو زیبا
جو بے نیازِ سوال ہے وہ ترا گدا ہے
مَیں رہ گُزارِ کرم میں مثلِ غُبار بے خود
مرا مقدر بکھر کے بھی کیا سنور گیا ہے
گدائے حرفِ ثنا کے دامن میں اور کیا تھا
یہ شعر تھا جس کو تیرے در پر ہی رکھ دیا ہے
اس ایک منظر میں ہی رہی ہے حیاتِ منعَم
تری نظر ہے، ترا کرم ہے، تری عطا ہے
ترے ہی در سے جُڑے ہیں سب نام طلعتوں کے
یہ حُسن زادِ جہان تیرا ہی نقشِ پا ہے
خطا سراپا ہوں، حرفِ توبہ ہے، تیرا در ہے
اور اِس سے آگے کا سارا منظر تری رضا ہے
عجیب حیرت کدہ ہے مقصود شہرِ سرور
زمیں کی جیسے جبیں پہ رکھا ہُوا سما ہے