گھِرے طُوفاں میں ہیں، نظرِ کرم سرکار ہو جائے
توجہ آپ فرمائیں، تو بیڑا پار ہو جائے
کرم کی اک نظر آقا مرے دِل کی ہر اک دھڑکن
محبت، کیف و مستی، عشق سے سرشار ہو جائے
مجھے رکھنا ہمیشہ اپنے ہی حلقہ بگوشوں میں
ہیں مرکز آپ، میری زندگی پُرکار ہو جائے
چھپا لینا مرے آقا مجھے دامانِ رحمت میں
مرا جب دُشمنِ جاں، درپئے آزار ہو جائے
اگر سرکار اجازت دیں، اگر سرکار فرمائیں
سگِ آوارہ، بے چارہ، سگِ دربار ہو جائے
گِنے جائیں سگِ در آپ کے جس دم، مرے آقا
اشارہ میری جانب بھی، مری سرکار ہو جائے
ظفرؔ کے رنج و غم یکدم بدل جائیں گے خوشیوں میں
حبیبِ کبریا، گر مُونس و غم خوار ہو جائے