اردوئے معلیٰ

ہائے یہ رنج محبت کہ جسے پانے میں
میں نے اک عمر کمائی ہوئی عزت اپنی
چند لمحوں کی رفاقت پہ نچھاور کردی
میں بھی اوروں کی طرح عام سی لڑکی نکلی
وہ مرا زعم مرا مان دکھاوا نکلا
مجھ کو لگتا تھا مرا دل بھی کوئی پتھر ہے
جس پہ آہوں کا اثر ہے نہ کسی دستک کا
میں تو بہری ہوں صدائیں ہی نہیں سن سکتی
لوگ آواز لگاتے ہیں گذر جاتے ہیں
مجھ کو لگتا تھا مرے گرد کوئی خول سا ہے
جو کبھی ٹوٹ سکا ہے نہ کبھی ٹوٹے گا
پر میں لفظوں کی حرارت سے پگھلنے والی
ایک بس عام بہت عام سی لڑکی نکلی
جس کو جو چاہے محبت کا وظیفہ پڑھ کے
اپنی مٹھی میں کرے قید
کئی دن رکھے
اور بھر جائے اگر دل تو اٹھا کر پھینکے
آج یہ کرب مجھے چین نہ لے دے گا
خود کو میں خاص بہت خاص سمجھنے والی
میں بھی اوروں کی طرح عام سی لڑکی نکلی
کتنی گرہیں ہیں جو اب روح میں پڑ جاتی ہیں
اور میں خود اپنے کہے سے ہی مکر جاتی ہوں
ہائے اک بار ندامت ہے مرے شانوں پہ
جس کو ڈھونے کا جو سوچوں بھی تو مر جاتی ہوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات