ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے
اُترے گی مرے گھر ہی جو بارات چلی ہے
ملتے ہیں گھڑی بھر کو دکھانے کے لئے زخم
یاروں میں نئی طرزِ ملاقات چلی ہے
لگتا ہے کہ افسانۂ رسوائی بنے گی
وہ بات جو اغیار سے بے بات چلی ہے
جو عشق نے چاہا ہے وہی کر کے دکھایا
کب دل کے حضور اپنی کوئی بات چلی ہے
پھر کوئے سیاست میں بعنوانِ شریعت
اک رسمِ خریداریِ جذبات چلی ہے