ہجر میں سوزِ دل تو ہے خیرِ انام کے لیے
دیکھیے کب ہو حاضری در پہ سلام کے لیے
اُسوۂ شاہِ دیں کا ہو دل پہ طلوع آفتاب
تاکہ شفق ٹھہر سکے زیست کی شام کے لیے
ان کا پیام جزوِ جاں ایسے بنایئے کہ پھر
مژدۂ جاں فزا ملے، عیشِ دوام کے لیے
اہلِ جنوں بھی مصلحت کوش ہوئے عجیب ہے!
برق و شرار تھا جنوں سارے ظِلام کے لیے
تیغِ یقیں بھی آگئی حیف نیامِ وقت میں!
کس نے بنا دیا نیام ایسی حُسام کے لیے
امتیٔ شہِ زمن ایسا عقاب تھا کبھی
جس کی شبیہ تک نہ تھی دانہ و دام کے لیے!
کاش کبھی میں کہہ سکوں خواب میں آیئے حضور !
دل کا چمن کھلا ہے آج لطفِ خرام کے لیے
کیسے دعا بدل سکے اپنا نظامِ زندگی
چاہیے اُن کی پیروی، اُن کے نظام کے لیے
دل کی صدا کی گونج ہے ارضِ حجاز تک عزیزؔ
کاش اشارہ وہ کریں اپنے غلام کے لیے