ہجومِ دُشمناں اب چار سُو ہے
محافظ اُمتِ عاجز کا اب تُو ہے
یہ لمحہ معتبر ہے ، محترم ہے
مرے ہونٹوں پہ تری گفتگو ہے
مہ کامل ہے روشن تر وہ چہرہ
جہاں میں کون ایسا خوبرو ہے
تصور سبز ہے ، آنسو معطر
یہ کیسا رنگ ہے ؟ یہ کیسی بُو ہے ؟
میں ہجرِ مصطفیٰ میں رو رہا ہوں
مرا گریہ ، مرے دل کا وضو ہے
وہ جالی دیکھنا ، پھر اُس کو چھونا
خوشا! کیسی سنہری آرزو ہے
وہ مکہ ہو کہ ہو شہر مدینہ
قسم اس شہر کی ہے جس میں تو ہے
ادب اُن کا ، محافظ ہر عمل کا
گواہی آیۂ " لا ترفعوا " ہے
مقامِ بندگی پر غور کیجیے
کہ ہم صرف عبد ہیں ، وہ عبدہُ ہے
غزل خود نعت میں ڈھلتی ہے اخترؔ
سخن میں کیا حسیں ذوقِ نمو ہے