ہر جگہ ہر نظر دیکھ سکتی نہیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
میرے لب پر فقط کلمۂ آفریں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
تو ہی مسجود ہے تو ہی مقصود ہے میں ہوں بندہ ترا تو ہی معبود ہے
تیری وحدانیت پر ہے سب کو یقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
میری عاجز نظر میری قاصر زباں تیری عظمت کا کیسے کرے گی بیاں
تو نے انساں کو بخشا ہے نورِ مبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
شکر ہر حال میں صبر ہر حال پر ہے نظر تیری دنیا کے احوال پر
حکم تیرا ہے مجھکو نہ ہو تو حزیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
تو ہی ذیشان ہے تو ہی ہے محترم خوف عصیاں سے ہے سب کی کیوں چشم نم
تیرے در پر جھکے انس و جاں کی جبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں
تو نے بخشا مجھے دولتِ علم و فن ہیں عطا کر دہ تیرے ہی یہ جان و تن
ہے رگِ جاں میں خوشدلؔ کے تو بالیقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں