ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمد
ہر شام ہے گیسوئے دل آرائے محمد
جپتی نہیں نظروں میں دو عالم کی تجلّی
ہے جب سے تصور میں سراپائے محمد
آئینے میں خود آئینہ گر بول رہا ہے
جو حکمِ خدا ہے وہی ثنائے محمد
انسان کو اگر تربیتِ فکر و نظر ہو
پھیلی ہوئی ہر سمت ہے دنیائے محمد
کانٹے مرے تلووّں کے لئے لالہ و گُل ہیں
گلشن ہے مرے واسطے صحرائے محمد
کب سے درِ اقدس کو ہیں بے تاب نگاہیں
کب سے مرے دل میں ہے تمنائے محمد
دانش مری آدابِ محبت پہ منظر ہے
قبلہ ہے مرا نقشِ کف پائے محمد