ہر موڑ پر ٹھہر کے کریں راستے کی جانچ
اس درجہ احتیاط کے قائل نہیں تھے ہم
غفلت جو تھی اگر تو بس اپنے ہی حال سے
حالت سے دوستوں کی تو غافل نہیں تھے ہم
خوابوں کی آبرو بھی پسِ پشت ڈال دیں
اتنے بھی زیرِ بارِ مسائل نہیں تھے ہم
گزری تو خیر جیسی بھی لیکن لگا ہمیں
اُس انتظارِ زیست کا حاصل نہیں تھے ہم
شکوہ نہیں ہے بابِ اثر سے ہمیں ظہیرؔ
اپنی دعائے خیر میں شامل نہیں تھے ہم