ہر وقت دل کی آنکھ کو طیبہ دکھائی دے
وقتِ نزع حضور کا جلوہ دکھائی دے
تیرہ شبی ہوئی ہے مسلط حیات پر
میرے حضور آپ کا چہرہ دکھائی دے
میرے بھی گھر میں بھیک غلامی کی ہو عطا
میرے بھی گھر میں خُلد کا نقشہ دکھائی دے
کیسے سجے گی سرپہ یہ دستارِ فخر جب
اُن کے گدائے شہر کا رتبہ دکھائی دے
کیسا فلک پہ چاند ستاروں کا نور ہے
مجھ کو تو یہ درود کا حلقہ دکھائی دے
رب کی رضا ہے سیرتِ اطہر کی پیروی
قربِ نبی کا بھی یہی زینہ دکھائی دے
جس کو نبی کی یاد کے آنسو نہیں نصیب
بہتر ہے ایسی آنکھ کو کچھ نہ دکھائی دے
جس پر چلے تو قرب ملے آپ کا حضور
اے کاش وہ شکیلؔ کو رستہ دکھائی دے