ہر چیز مُشترک تھی ہماری سوائے نام
اور آج رہ گیا ہے تعلق برائے نام
اشیائے کائنات سے ناآشنا تھا میں
پھر ایک اِسم نے مجھے سب کے سکھائے نام
تب میں کہوں کہ سچا ہوں یک طرفہ عشق میں
وہ میرا نام پوچھے ، مجھے بھول جائے نام
وہ دلرُبا بھی تھی کسی شاعر کی کھوج میں
میں نے بھی پھر بتایا تخلص بجائے نام
لشکر بنا رہا ہوں جوانانِ عشق کا
جس میں بھی آگ ہے ، مجھے مِل کر لکھائے نام،
تو عشق پائے عشق کے مرنے کے بعد بھی
فارس! مزارِ دل پہ ترا جگمگائے نام