ہر کوئی یہ کہتا ہے ترا ہونے سے پہلے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
گر ہو نا ادب ماہِ عرب کا مرے آگے
بڑھ جائے بھلے شوق سے دردِ شبِ فرقت
اِک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جب تک نہ کہے آپ ہیں آقا مرے آگے
آ جائے بلاوا جو مدینے کے نگر سے
جز وہم نہیں ہستئِ اشیاء مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
کرتا ہے طلب ساغرِ بطحا مرے آگے
لے لوں جو ترا نام سرِ موجہِ مشکل
گِھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
اے زائرِ طیبہ ابھی رہنا مرے آگے
میں عاشقِ جاناں ہوں سو اے گرمئِ محشر
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آراء ہوں نہ کیوں ہوں
شیشے کی طرح عشق ہے میرا مرے آگے
اشکِ شبِ ہجرِ شہِ خوباں کی طلب میں
بیٹھا ہے بتِ آئینہ سیما مرے آگے
پھر دیکھئے اندازِ گل افشانیٔ گفتار
اٹھنے دو نقابِ رخِ زیبا مرے آگے
کہتے ہیں کسے جوش بتا دوں گا اُسے میں
رکھ دے کوئی پیمانہِ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
ابلیس کو سرکار نے روکا مرے آگے
جب نامِ نبی خوں کے تسلسل کا سبب ہے
کیونکر کہوں لو نام نہ اُن کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
میں کیا کروں ہے مژدہِ عیسٰی مرے آگے
میں قبلہِ عیسٰی کی شرح کرنے چلا ہوں
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگ
عاشق ہوں یہ معشوق فریبی ہے مرا کام
حاشا نہ کبھی بولنا ایسا مرے آگے
طیبہ سے میں لَوٹا تو مری دیکھ کے آنکھیں
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلٰی مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
کرتا رہا تبلیغ یہ مُلّا مرے آگے
تو کس کے لئے روتا ہے مجھ کو بھی دکھانا
آئی شبِ ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
ہوش آئے تو آ جائے وہ مکھڑا مرے آگے
لو بند ہوئی آنکھ سرِ دعوتِ رحلت
آتا ہے ابھی دیکھئے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
پھر چھیڑئیے ذکرِ شہِ والا مرے آگے
شوق آپ کا ہوتے ہوئے کیونکر کہوں ایسا
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم مشرب و ہم پیشہ و ہمراز ہے میرا
تقصیرِ تخیّل نہ کئے جا مرے آگے
غالب کی غزل نعت کے سایے میں کھڑی ہے
غالب کو برا کیوں کہو، اچھا مرے آگے