ہر کڑے وقت میں لب پہ یہی نام آئے گا
میرے آقا کا وسیلہ مرے کام آئے گا
ہم جو بھیجیں گے درود اور سلام آقا پر
درِ اکرام سے بدلے میں سلام آئے گا
تھام لے گی اُسے سرکار کی رحمت بڑھ کر
مرے آقا کے جو قدموں میں غلام آئے گا
یہ تصور ہی معطر کیے رکھتا ہے مجھے
’’درِ آقا پہ چلے آؤ‘‘ پیام آئے گا
ظلمتِ دہر روانہ ہے فنا کی جانب
سرورِ دیں کے غلاموں کا نظام آئے گا
پہلے عظمت مرے آقا کی بسا لو دل میں
پھر سمجھ میں تمہیں اُس رب کا کلام آئے گا
خاکِ بطحا کو مرے اشک سلامی دیں گے
سوچتا رہتا ہوں کب ایسا مقام آئے گا
سیرتِ شاہِ عرب پڑھ کے ذرا دیکھ شکیلؔ
پختہ ہو گا ترا کردار دوام آئے گا