ہزار زخم دلِ کم نصیب نے جھیلے
کوئی مذاق نہ تھا عشق بارہا کرنا
پھر اس کے بعد بھلے زندگی رہے نہ رہے
پھر اس کے بعد بھلا زندگی کا کیا کرنا
قصور صرف یہی تھا کہ رقصِ جان کنی
ترے فقیر نے سیکھا نہ جابجا کرنا
کسی بھی طور سے آغاز ہو کسی شے کا
دلِ تباہ کی فطرت ہے انتہا کرنا
نہیں یہ صرف مسافت کے روگ ہم نفسو
ہمیں پڑا ہے قیامت کا سامنا کرنا
یہ کیا کہ پِیٹ کے بس تالیاں ہی لوٹ گئے
تماش بین ، تماشے کا حق ادا کرنا