اردوئے معلیٰ

ہم آئے ہیں لَو اُن کے در سے لگا کے

اُنہیں اپنا ملجا و ماوٰی بنا کے

 

ہر اک رنج و غم میں اُنہی کو پکارا

وہ بخشیں گے فرحت مدینے بلا کے

 

میں پہنچا ہوں دربارِ فریاد رس میں

’’ہوا بوجھ ہلکا غمِ دل سُنا کے‘‘

 

کیا ذکر اُونچا ہے اُن کا خُدا نے

جہاں میں ہیں چرچے مرے دلرُبا کے

 

وہ معراج کی شب ،نبی مرسلیں سب

کھڑے مقتدی منتظِر مقتدا کے

 

گنہ گار ہوں ، سر اُٹھاؤں تو کیسے

کھڑا ہوں ندامت میں سر کو جُھکا کے

 

یہ اُمید ہے درگزر وہ کریں گے

سُناؤں گا دُکھڑے جو آنسو بہا کے

 

وہ ٹوٹے ہوئے دل کا غم جانتے ہیں

اگرچہ میں بیٹھا ہوں آنسو چُھپا کے

 

ابوبکر پر میری جاں ہو تصدق

کہ صدیق پیکر ہیں صدق و صفا کے

 

تو فاروقِ اعظم تری نیکیاں جو

ہوئی ہیں برابر نجومِ سما کے

 

حیا ان سے کرتے ہیں قدسی فلک پر

کہ منبع ہیں عثمانؓ شرم و حیا کے

 

صحابی تو ہیں وہ مگر اِس سے پہلے

علی ہیں برادر شہِ انبیا کے

 

شبیہِ پیمبر ، جنابِ حسنؓ ہیں

کہ ہر سمت چرچے ہیں فہم و ذکا کے

 

تہِ تیغ سجدے، سِناں پر تلاوت

کہ انداز ہیں یہ شہِ کربلاؓ کے

 

جلیلِ حزیں آ کے در پر کھڑا ہے

تِری آل کو یہ وسیلہ بنا کے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔