ہم اپنے اعمال پہ اپنے اندر ڈوب کے مر جاتے ہیں
جیسے سورج روز افق میں جا کر ڈوب کے مر جاتے ہیں
اس کوٹھی میں رہنے والے جانے ایسا کیا کرتے ہیں۔
کوئی پوچھے تواس گھر کے نوکر ڈوب کے مر جاتے ہیں
”میری تیراکی کے آگے دریا بھی پانی بھرتا ہے”
ایسا دعویٰ کرنے والے اکثر ڈوب کے مر جاتے ہیں
ساحل کا احسان اٹھا کر ہم جیسوں نے جینا ہے تو
ایسے زندہ رہنے سے تو بہترڈوب کے مر جاتے ہیں
سیلابوں میں گھاس اور پتے موجوں پر موجیں کرتے ہیں
جبکہ سارے بھاری بھاری پتھر ڈوب کے مر جاتے ہیں
ہم اللہ والوں کے آگے دریا بھی رستہ بنتا ہے
تیرے جیسے فرعونوں کے لشکر ڈوب کے مر جاتے ہیں
تیری آنکھوں کے نشے کی مے خانے میں بات چلے تو
بوتل کا سر جھک جاتاہے، ساغر ڈوب کے مر جاتے ہیں
اللہ چاہے جس کو، اس کو تنکا پار لگا دیتا ہے
ورنہ کشتی وشتی، لنگر ونگر ڈوب کے مر جاتے ہیں