اردوئے معلیٰ

ہم سے ہی ایسے فکر کو پالا نہیں گیا

زیرِ زمین زر تھا نکالا نہیں گیا

 

جن کی دعا سے پیدا ہوئی ہے شعاعِ مہر

ان بستیوں میں اُس کا اُجالا نہیں گیا

 

گو سامنے نظر کے وہ شفاف جھیل تھی

دلدل سے اپنا پاؤں نکالا نہیں گیا

 

کچھ اس لیے بھی دور حقیقت کا شہر ہے

رنگوں سے آگے دیکھنے والا نہیں گیا

 

ہجرت وہ خود ہی کر گئیں یہ بھوک دیکھ کر

گھر سے ضرورتوں کو نکالا نہیں گیا

 

اس کو میں کس پتہ پہ جہاں میں کروں تلاش

دے وہ کوئی اپنا حوالہ نہیں گیا

 

ہم اس لئے بھی شہر میں بے ننگ و نام ہیں

ورثے میں جو ملا تھا سنبھالا نہیں گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ