ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے
خوش نصیبی پھر ہمارے ہم قدم ہونے کو ہے
شاہِ محبوباں کے درکی حاضری ہو گی نصیب
قافلہ اپنا رواں سوئے حرم ہونے کو ہے
رحمتِ باری برسنے کا ہے موسم پھر قریب
جوئے سر شاری یہ اپنی چشمِ نم ہونے کو ہے
ہے درودی ساعتوں کا قریۂ جاں پر نزول
باصرہ افروز وہ قرآں شِیَم ہونے کو ہے
شہرِ شاہِ سروراں کی دید اور یہ کم تریں
اک فقیرِ بے نوا بھی محتشم ہونے کو ہے
نخلِ اُمیدِ حضوری وہ نظر آنے لگا
روشنی قلب و نظر میں دم بدم ہونے کو ہے
ان کے آنے کے تصوّر میں چمک اٹھی نظر
نصف شب بھی سوچتاہوں صبح دم ہونےکو ہے
یہ ثنائے نُورِ احمد حرفِ رنگ و نور سے
وقت کے ماتھے پہ دیکھو پھر رقم ہونے کو ہے
اے حدی خواں اور بھی کچھ تیز لے چل کارواں
دھڑکنوں کا یہ سفر اب مختتم ہونے کو ہے
جا رکھوں اے کاش نوری انکے قدموں میں یہ سر
زندگی اب بے نیاز ِ کیف وکم ہونے کو ہے