ہم نے فرقت میں کبھی خود کو نہ تنہا پایا
مدحتِ سرورِ کونین میں ڈوبا پایا
چشم نم ‘ جانِ حزیں ‘ دل ہے شکستہ پایا
ہجرِ دربارِ رسالت میں نہ کیا کیا پایا
گنبدِ سبز کو جب ایک نظر دیکھ لیا
میرے خوابوں نے بھی سرکار کا روضہ پایا
فتنۂ برزخ و محشر کے مقابل خود کو
ان کی یادوں کے تصدق نہ اکیلا پایا
ہوسِ مال و متاع و زرِ دنیا نہ رہی
جب سے سرکار کے دربار سے ٹکڑا پایا
جانے کیوں سوئے ادب کا مجھے رہتا ہے گماں
اس لیے خود کو درِ شہ پہ نہ لے جا پایا
دیکھ کر خلد مری راہ میں بچھی جاتی
مدحتِ سرورِ عالم سے یہ رتبہ پایا
جب کبھی شدتِ جذبات سے مجبور ہوا
چشمِ بے تاب کو اس در پہ چھلکتا پایا
ان کی شان اُن کا خدا جانے یا خود وہ جانیں
ان کے پائے کا کسی نے بھی نہ پایا پایا
نعتِ محبوبِ دو عالَم کے تصدّق ازہرؔ
رنج و غم میں نہ کبھی خود کو ہے تنہا پایا