ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں
حرفِ توصیف میں بس دیدۂ تر رکھتے ہیں
وہ جسے چاہیں گے تعبیر عطا کر دیں گے
ان کی دہلیز پہ ہر خواب کا سر رکھتے ہیں
موند کر آنکھ مواجہ پہ پہنچ جائیں گے
ہم تہی دست یہی طرزِ سفر رکھتے ہیں
بابِ تعبیر پہ اک ناقہ سوار آئے گا
عجز پلکوں کا سرِ راہ گزر رکھتے ہیں
شب گزیدہ ہیں اندھیروں کے طرف دار نہیں
اپنی پلکوں پہ تمنائے سحر رکھتے ہیں
تیری نسبت ہی نے شاداب کیا ہے ورنہ
خشک اشجار کہاں برگ و ثمر رکھتے ہیں
پیش کر دیں گے سرِ جلوہ گہِ شاہِ امم
اپنی پلکوں میں پس انداز گہر رکھتے ہیں
جس کو دو لخت کریں وہ جسے الٹا پھیریں
نوکِ انگشت پہ خورشید و قمر رکھتے ہیں
دربدر ہونے کی اشفاقؔ ضرورت ہی نہیں
ہاتھ پھیلانے کو سرکار کا در رکھتے ہیں