اردوئے معلیٰ

 

ہوئی خود حقیقت مخفی تھی جلی لباس مجاز میں

نظر آئی جس کو ضیائے ضو جسد قریش حجاز میں

 

ہوا رونما جلوہ ترا جو احد سرائے طراز میں

تو چھپائے احمد پاک کے نہ چھپا ہے وہ میم و راز میں

 

وہی ذات بابرکت تھی بخدا سکون حیات تھی

وہ ربوبیت کی شمولیت تھی ادائے حلم طراز میں

 

وہی مصطفیٰ وہی مجتبی وہی مبتدا وہی منتہا

وہی سوز میں وہی ساز میں وہی ترک میں وہی تاز میں

 

وہی آن حق وہی شان حق وہی کان حق وہی جان حق

ہوئے مومن اس کے ہی کلمہ گو گئی سجدے اس کو نماز میں

 

وہی چشم نور دراصل تھی کہ بصیرتی شب وصل تھی

نہ ہوئے جو آئینہ حیرتی یہ محاذ آئینہ ناز میں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ