ہوئے مسند نشیں پھر ملک و ملت بیچنے والے
بنا کر بھیس زر داروں کا غربت بیچنے والے
خدا حافظ بزرگوں کی امانت کا خدا حافظ
محافظ ہو گئے گھر کے، وراثت بیچنے والے
زمیں ملکِ خدا میں ہو گئی تنگ اب کہاں جائیں
کدالیں تھام کر ہاتھوں میں محنت بیچنے والے
خزانے میری مٹی کے عجب ہیں کم نہیں ہوتے
مسلسل بیچتے ہیں بے رعایت بیچنے والے
قلم کی روشنائی کر رہے ہیں صرفِ آرائش
صحافت کی دکانوں میں سیاست بیچنے والے
مٹا کر تو دکھائیں پہلے کالک اپنے چہروں کی
بنام صبح روشن تر یہ ظلمت بیچنے والے
دل و جاں بر طرف، بکتے رہیں گے دین و ایماں بھی
خریداروں کی دنیا میں سلامت بیچنے والے
منافق ہو گئی میری سماعت بھی ظہیرؔ آخر
پسند آئے سر منبر خطابت بیچنے والے