ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا
عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا
یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا
ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا
خبر کوئی کر دے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا
کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا
وجود آدمی ہے، تو ہے زندگی عکس
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا
بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا