ہوا چیر دیتی ہے اِس شہر کی
فضا موت جیسی ہے اِس شہر کی
لہو کے سمندر سے شمشان تک
ملاقات ہوتی ہے اِس شہر کی
خرابوں کے اوراق پر گونجتی
ادھوری کہانی ہے اِس شہر کی
یہاں خواب اُگنے کا موسم نہیں
بڑی بانجھ دھرتی ہے اِس شہر کی
سُنا ہے ابھی تک یہاں اِک گلی
مری منتظر تھی ، ہے اِس شہر کی
اُسے خط لِکھو اب کے تو پوچھنا
کبھی یاد آئی ہے اِس شہر کی
علاقہ ہے اِس سے مجھے مرتضیٰ
ہر اِک چیز پیاری ہے اِس شہر کی