ہونٹ جب اسمِ محمد کے گہر چومتے ہیں
تب کہیں حرفِ دعا بابِ اثر چومتے ہیں
گھیر لیتے ہیں انہیں کیفِ کرم کے جگنو
ان کی چوکھٹ کو جو با دیدۂ تر چومتے ہیں
ان کے چہرے کی صباحت کا سماں کیا ہوگا
جن کے تلووں کی لطافت کو قمر چومتے ہیں
ورنہ پتھر کو کہاں ملنا تھا ایسا رتبہ
آپ نے چوما تھا سو ہم بھی حجر چومتے ہیں
ہے یہ اظہارِ عقیدت بھی عقیدہ بھی یہی
نام سرکار کا ہم شام و سحر چومتے ہیں
جس کی آنکھوں میں بسی ہوگی مدینے کی گلی
نور والے اسی زائر کی نظر چومتے ہیں
جب عطا ہوتا ہے اشفاق یہ میٹھا تحفہ
ہم عقیدت سے مدینے کی تمر چومتے ہیں