ہو اذن حضوری کا دعا مانگ رہے ہیں
آقا ترے قدموں میں جگہ مانگ رہے ہیں
درکار ہمیں کچھ نہیں اسبابِ زمانہ
بس شہرِ مدینہ کی ہوا مانگ رہے ہیں
مالک ترے محبوب کی کرپائیں ثنا ہم
وہ ذوق و تمنائے رضاؔ مانگ رہے ہیں
پوچھو نہ سوالی ہیں جو محبوبِ خدا کے
وہ جانتے ہیں کون ہیں کیا مانگ رہے ہیں
ظلمت کدۂ دہر میں امت ہے پریشاں
ہم نورِ منور کی ضیا مانگ رہے ہیں
مفہوم بدل دیتے ہیں الفاظ جہاں پر
مدحت ہو کچھ ایسی ہی عطا مانگ رہے ہیں
مل جائے غلامی کی سند ایسی ثنا ہو
ہم وارثیؔ وہ ذوقِ ثنا مانگ رہے ہیں