ہو جیسے اڑتے بگولوں کا سلسلہ کوئی
گلی سے دشت کی جانب گزر گیا کوئی
میں اپنی سانس کی ترتیب ہی الٹ دوں گا
ہوا جو وقت سے درپیش معرکہ کوئی
تمھارے ہجر میں تنہا نہیں سفر اپنا
ہمارے سائے میںچلتا ہے راستہ کوئی
گئے دنوں میں اداسی سے خوب بنتی تھی
جنوں سے اپنا نہیں اب کے سلسلہ کوئی
یہ کیسا زہر اتارا ہے تو نے خوں میں مرے
کہ اب بھلا نہیں لگتا ہے ذائقہ کوئی