ہو کرم کی نظر اس گنہگار پر ، ہاتھ باندھے کھڑا ہے یہ در پر شہا
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا کیجئے ، اپنا دامن یہ لے جائے بھر کر شہا
آپ کے در پہ آتے ہیں شاہ و گدا ، لوٹ کر در سے کوئی نہ خالی گیا
جس نے مانگا ہے جو بھی مرِے مصطفیٰ ، آپ نے اْس کو بھیجا ہے دے کر شہا
کیوں نہ شہر مدینہ ضیا بار ہو ، اسکے چاروں طرف نور ہی نور ہو
ہیں ہوائیں بھی کتنی مصفّٰی یہاں اور فضاء بھی ہے کتنی معطّر شہا
جس نے جھیلے ہیں صدمے سدا ہجر کے ، دور طیبہ سے آخر وہ کیونکر رہے
کیف ملتا ہے کیسا یہاں وصل میں ، ہم نے دیکھا مدینے میں آ کر شہا
ہاتھ جوڑے کھڑا ہے جلیلِ حزیں ، آپ کے در کا منگتا ہے اے شاہ دیں
لوٹ کر پھر بھی آئے گا یہ بالیقیں ، اس کو اذنِ حضوری ملے گر شہا