اردوئے معلیٰ

ہو کون عہدہ بر آ مدحتِ پیمبر سے

کہ پار اتر نہ سکا کوئی اس سمندر سے

 

نہ آفتاب سے روشن نہ ماہ و اختر سے

ہے کُل زمانہ منوّر حضورِ انور سے

 

نکل رہا ہے پسینہ جو جسمِ اطہر سے

بڑھا ہوا ہے وہ خوشبو میں مشک و عنبر سے

 

نگاہ کر نہ سکیں عاشقانِ تیز نگاہ

جلال و رعب وہ ٹپکے رُخِ پیمبر سے

 

دلِ سیاہ بھی نا ممکن العلاج نہیں

جو کسبِ نور کرے سیرتِ مطہّر سے

 

قدم جمے ہی رہے آنحضور کے پھر بھی

اُحد میں موجۂ خوں بھی گزر گئی سر سے

 

سکوں نصیب ہے از یادِ شافعِ محشر

لرز رہا تھا ابھی دل حسابِ محشر سے

 

وہ یارِ غار کا انفاق فی سبیل اللہ

اٹھا کے لائے وہ سارا اثاثہ ہی گھر سے

 

بفکرِ اُمّتِ عاصی وہ شب میں ہے بیدار

حضورِ رب میں دعائیں وہ اُٹھ کے بستر سے

 

مقربین ملائک درود پڑھتے ہیں

ملا ہے حکم یہی ان کو ربِّ اکبر سے

 

غمِ فراقِ دیارِ حبیب یا اللہ

اُٹھیں جو غم کے یہ بادل نہ جائیں بن برسے

 

وہ بارگاہ نظرؔ ہم بھی دیکھ آئے ہیں

عجب نہیں ہے کہ پھر دیکھ لیں مقدّر سے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔