اردوئے معلیٰ

ہو گئے شاہِ سخن خاک نشیں بیٹھ رہے

پیار سے ہم کو بلاتی تھی زمیں بیٹھ رہے

 

تم بھی تھک ہار گئے درد کا درماں کرتے

ہم بھی لاچار پسِ مرگِ یقیں بیٹھ رہے

 

تو بہت دور، بہت دور ، بہت دور ہوا

ہم تری کھوج میں یونہی تو نہیں بیٹھ رہے

 

ان کا کیا ہے کہ فراموش ہوئے یا نہ ہوئے

راہ گم کردہِ الفت تھے کہیں بیٹھ رہے

 

وہ جو پرواز پہ نازاں تھے انہیں عمر ہوئی

تیری دہلیز پہ دھر دی ہے جبیں بیٹھ رہے

 

اور جاتے تو کہاں جاتے وفا کے باسی

دل کے ملبے پہ ترے دل کے مکیں بیٹھ رہے

 

بد نصیبی سے زمیں محوِ سفر تھی ، اور ہم

وہ مسافر ہیں کہ جو اپنے تئیں بیٹھ رہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات