ہے ثبت تری ذات سے تاریخ بشر میں
وہ عزم کے تھکتا نہیں طائف کے سفر میں
تو نور ازل تاب سر مطلع تخلیق
فیضان ضیا تجھ سے ہے دامان سحر میں
خورشید کے کاسہ میں ترا صدقہ انوار
خیرات ترے حسن کی کشکول قمر میں
اے سارے جہانوں کے لیے مژدۂ رحمت
احوال زمانوں کے سبھی تیری نظر میں
درپیش ہے بے سمت مسافت کی اذیت
اس دور کا انسان ہے دانش کے بھنور میں
اشکوں کو زمین پر بھی میں گرنے نہیں دیتا
سرمایا تری یاد کا ہے دیدۂ تر میں
انور مرے دیوان میں ہے نعت پیمبر
کیا توشہ عقبٰی ہے مرے رخت سفر میں