اردوئے معلیٰ

 

ہے ذکر مدینے کا اور آنکھ بھر آئی ہے

جائیں گے وہاں ہم بھی یہ آس لگائی ہے

 

ہے بخت لگا چھونے میرا بھی بلندی کو

سرکار مدینہ سے جب بات بڑھائی ہے

 

لفظوں میں بیاں کیسے ہو پائے گا وہ منظر

کیا تم کو بتاوں میں یہ کیسی جدائی ہے

 

ہر سمت ہے رحمت کی بارش سی ہوئی نازل

اعطائے محمد کی یہ جلوہ سرائی ہے

 

جب روح ہوئی پیاسی دیدارِ محمد کی

جا گنبد خضریٰ سے وہ پیاس مٹائی ہے

 

جب سدرہ پہ پہنچے تو جبریلِ امیں بولے

آگے تو فقط آقا! آقا کی رسائی ہے

 

آقا نے بتایا ہے یوں رتبہ مجھے ماں کا

دیکھا جو حلیمہ کو تو کملی بچھائی ہے

 

اک نقش کف پا کا ہے تجھ پہ کرم عامر

قسمت میں تری لکھی گر مداح سرائی ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ