اردوئے معلیٰ

ہے رخشِ سخن مدحتِ آقا کے سفر میں

صد شکر کہ ہے روح، بہاروں کے اثر میں

 

طیبہ کا سفر باعثِ شادابیٔ دل تھا

عُشاق کو اب چین مُیَّسر نہیں گھر میں

 

وہ پیروِ سرکار کبھی ہو نہیں سکتا

جو ڈھونڈتا پھرتا ہے سکوں لعل و گہر میں

 

وہ عشق جو پہنچائے درِ شاہِ ہدیٰ تک

تنویر اسی کی ہو مرے شام و سحر میں

 

اب وقتِ دعا ہے مرے آقا مرے مولا

اُمت کا ہر اِک فرد ہے آغوشِ شرر میں

 

ہو پیشِ نظر مرضیٔ آقا ہی مسلسل

مقصد ہو فقط ایک ہر اِک نفع و ضرر میں

 

احسنؔ ہو بسر عمر اس انداز سے اپنی

ہو اُسوۂ آقا ہی شب و روز نظر میں

 

حضرت ہلالؔ جعفری کے مصرعے
جو ذرّے ملے ہم کو مدینے کے سفر میں
پر ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء مطابق ۱۰ ؍ شوال المکرم ۱۴۲۹ھ بروز جمعہ،
بزم حمد و نعت، اسلام آباد کا مشاعرہ ہوا۔ منگل کو حافظ نور احمد صاحب
کی یاد دہانی اور اصرار پر الحمد اللہ ! کراچی میں یہ نعت ہو گئی جو حافظ صاحب
کو لکھوا دی اور انہوں نے ازراہِ عنایت مشاعرے میں سنا دی۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ