ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
رکھ دیا قدرت نے اعجازِ مثالی ہاتھ میں
منتظر ہے حکم کا گنج لآلی ہاتھ میں
سبز ہو جائیں جو پکڑیں خشک ڈالی ہاتھ میں
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں
اس کا فیضِ عام سائل کو صدا دیتا ہے آپ
وہ جہانِ لطف و احسان میں جواب اپنا ہے آپ
میں یہ جانچا ہے ، یہ پرکھا ہے ، یہ دیکھا ہے آپ
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا پیاسا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آ جائے پیالی ہاتھ میں
ان کا اندازِ عطا کچھ بے خرد ، سمجھے نہیں
مانگنے والوں کے یوںہی رابطے ان سے نہیں
ہم نے دیکھے ہیں ، مگر ایسے غنی دیکھے نہیں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
میرے خالق! حشر میں امت کا یہ مقسوم کر
پل سے گزرے ان کے نعلینِ مبارک چوم کر
ہر طرف سے اک یہی آواز آئے گھوم کر
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جھُوم کر
جب لواءُ الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں
زانوؤں کا پیار سے منبر دیا سبطین کو
کیا شباہت کا حسیں منظر دیا سبطین کو
نعمتِ باطن سے ایسا بھر دیا سبطین کو
دستگیر ہر دو عالم کر دیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں
بانٹنے کو آئے جب وہ ساقی کاکُل بدوش
ہر ادا جس کی خود اک ہنگامہ محشر خموش
سرد پڑ جائے مرے بحر تعقل کا خروش
کاش ہو جاؤں لبِ کوثر میںیوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذَیلِ عالی ہاتھ میں
حاضری کا کیا وہ منظر تھا نہِ چرخِ کبود
ہاتھ اٹھتے ہی وہ ابوابِ اجابت کی کشود
دل کی دنیا پر وہ انوارِ سکینت کا وُرُود
آہ وہ عالم کی آنکھیں بند اور لب پر دُرُود
وقفِ سنگِ در جبیں ، روضے کی جالی ہاتھ میں
اے نصیر اس نعت میں لائے ہیں کیا مضموں ، رضا
کملی والے کے ثنا خواں ، عاشق و مفتوں رضا
شاہ کے پائے مبارک پر جو بوسہ دوں رضا
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا
لوٹ جاؤں پا کے ان کو ذَیلِ عالی ہاتھ میں