اردوئے معلیٰ

ہے مرکز مدینہ ہے محور مدینہ

سبھی عاشقوں کا ہے دلبر مدینہ

 

میرے دل کی دنیا بدل سی گئی ہے

ہُوا نقش جب سے ہے دل پر مدینہ

 

مری کشتیٔ شوق اس میں رواں ہے

کہ ہے نُور کا اک سمندر مدینہ

 

کسی کا کوئی اور اگر ہے تو ہو گا

مِرا مدعا ہے برابر مدینہ

 

میں خود موت کا خیر مقدم کروں گا

ملے بہرِ مدفن مجھے گر مدینہ

 

جیوں بھی مروں بھی مدینے میں آصف

میں جاؤں گا حسرت یہ لے کر مدینہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ